غیر درسی ا قتباس - عبارت - تفہیم _ Urdu Passages

  • درج   ذیل درسی   ا قتباس  کو  ‏غور  سے  پڑھئیے،    اور    درج   ذیل   سوالات  کے   جوابات  لکھئیے:                 

درج   ذیل درسی   ا قتباس  کو  ‏غور  سے  پڑھئیے،    اور    درج   ذیل   سوالات  کے   جوابات  لکھئیے:ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہوکر جا رہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا۔ ابھی یہ دھن میں آگے جا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھ آدمیوں نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار خالی دیے، لیکن جب دیکھا کہ وہ چھ ہیں تو سوچا کہ اچھا یہی ہے کہ ان سے بچ کر نکل چلوں۔

اس نے گھوڑے کوگھر کی طرف پھیرا، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پیچھے ڈال دیے۔اب تو عجیب حال تھا۔ سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے، گھوڑا دکا ن دار کی جان بچاکر اسے گھر لے آیا۔

کتنے آدمیوں نے  دکان دار   پر حملہ کر دیا ؟

دکان دار  کس کام سے گھوڑے پر سوار ہوکر جا رہا تھا؟

کون دکا ن دار کی جان بچاکر اسے گھر لے آیا؟

درج بالا اقتباس کس سبق سے لیا گیا ہے؟ سبق کا نام لکھیَے۔

سبق کے مصنف کا نام لکھیَے۔

  • درج  ذیل غیر درسی   ا قتباس  کو ‏غور سے پڑھئیے،   اور   درج  ذیل  سوالات کے صحیح جوابات لکھئیے:            

(الف)

محمود اور اس جیسے دوسرے بچے ہماری طرح تعلیم حاصل کرکے اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ وہ کارخانوں میں بڑی مہارت سے مشینوں پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ استاد، وکیل، اخبار نویس اور موسیقار وغیرہ بن سکتے ہیں۔ آج کل ایسے کئی لوگ اعلی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سماج کے لیے مفید بن سکتے ہیں۔ آج وہ سماج پر کوئی بوجھ نہیں ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم انھیں اپنے سے الگ نہ سمجھیں۔ ان کے ساتھ سچے دوست جیسا برتاؤ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ کلاس کے سبھی طلبا پڑھنے لکھنے میں محمود کی بھر پور مدد کریں گے۔ جاوید! کیا تم اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟

1۔ وہ نابینا بچے کہاں بڑی مہارت سے کام کرتے ہیں؟

(الف) چھت پر (ب)  مشینوں پر (ج) دیوار پر

2۔ کیا نابینا بچے وکیل بن سکتے ہیں؟

الف)جی ہاں (ب) جی نہیں (ج) ہو سکتا ہے

3۔ آج کل ایسے کئی لوگ _______؟

(الف) کام نہیں کر رہے (ب) کچھ نہیں کر رہے (ج) اعلی عہدوں پر 

4۔وہ سماج کے لئے _____بن سکتے ہیں؟

(الف)  بے کار (ب)  بے فائدہ (ج) مفید

5۔کیا نابینا لوگوں کو اپنے سے الگ سمجھنا صحیح ہے؟

(الف) صحیح ہے (ب) غلط ہے (ج) پتا نہیں

(ب)

ہم روز مرہ اپنی آپس کی بول چال میں ایسی کہاوتیں اور محاورے بولتے ہیں جن کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں مگر ہم کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کہاوتیں اور محاورے کس طرح ہماری زبان میں آئے اور انھیں ہم کب سے بولتے چلے آرہے ہیں۔تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان محاوروں اور کہاوتوں میں بعض ایسے ہیں جن کے پیچھے بڑ ے دل چسپ لطیفے اور قصے چھپے ہوئے ہیں۔

1۔  ہم ____اپنی آپس کی بول چال؟

 (الف) کبھی کبھی (ب)روز مرہ (ج) جب 

2  کس کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں؟

الف) بات چیت کا (ب) کہاوتوں اور محاوروں    (ج) کسی چیز کا نہیں

3۔ کون سی چیز ہماری زبان میں آئی؟

(الف) قصے کہانیاں (ب)بات چیت          (ج)کہاوتیاور  محاورے

4۔تم کو یہ سن کر __________ہوگی؟

(الف)  خوشی (ب)حیرت (ج)تکلیف 

5۔درج ذیل سےکہاوت کوپہچانئے؟

(الف)  جیسی کرنی ویسی بھرنی (ب)حیرت ذدہ (ج)تکلیف وآرام                      

(ج)

رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی ملکہ تھی جو دلّی کےتخت پر بیٹھی۔وہ دہلی کےبادشاہ التتمش کی بیٹی تھی۔اپنے بہن بھايئوں میں رضیہ سب سے زیادہ  ذہین، محنتی اور ہوشیار تھی۔باپ  نے اپنی زندگی  ہی میں اسے اپنا جانشین مقرّر کیا وہ جانتا تھا کہ بیٹے عیش پسند ہیں، بیٹی کے علاوہ کوئی اورحکومت چلانے صلاحیت نہیں رکھتا۔اس نے اپنے آخری دنوںمیں چاندی کےسکے پررضیہ کا نام بھی شامل کر لیا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد دربار میں  وزیر نےجب بادشاہ کی وصیّت پڑھکرسنائی تو ترک امیروں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ایک عورت دلّی کےتخت وتاج کی ملکہ ہو،رضیہ نے یہ دیکھا تو امیروں سے کہا:   "میرےعورت ہونے پر اعتراض ہے تو میں امن کی  خاطراپنےبھائی رکن الدین کی نام پیش کرتی ہوں۔آؤ ہم سب ملکراس سے وفاداری کا عہد کریں۔" 

رضیہ سلطان کہاں کی پہلی خاتون حکمران تھی؟

درج   ذیل درسی   ا قتباس  کو  ‏غور  سے  پڑھئیے،    اور    درج   ذیل   سوالات  کے   جوابات  لکھئیے: وہ کہاں کے بادشاہ کی بیٹی تھی ؟

بادشاہ التتمش نے اپنا جانشین کس کو مقرّر کیا ؟

رضیہ نے اپنے کونسے بھا‏ئی کو تخت نشین سونپا؟ 

درج بالا اقتباس کس سبق سے لیا گیا ہے؟ سبق کا نام لکھیَے ؟

(د)

دنیا کی زندگی اور مال واسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس کونے اپنی یہاں مقرر مدت گزارنے کے بعد دار  آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے۔جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہیے، کیونکہ ہم جانتے ہیں۔ کہ دنیوی زندگی،  آخرت کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے  آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اس وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے خیرو بھلائی کے بیج بونے میں صرف کریں۔ تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح اور بھلائی کا ثمر ملے گا۔انسان کو ہروقت اس کی فکر کرنی چاہئے اور اس کے بارے میں سوچنا چاہئے، انسان ہر وقت دنیا کمانے کی فکر میں رہتا ہے اور ہر وقت اس کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے، اس کو  آخرت کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے۔ اور اس فکر کرنا ہماری ‍ ذمہ داری ہے۔  
1۔   دنیا کی زندگی اور مال واسباب کیا ہیں؟
2۔ہر نفس کو کہاں کوچ کرنا ہے؟
3۔ ہمیں کس چیز کی قدر کرنی چاہئے؟
4۔انسان ہر وقت کس فکر میں رہتا ہے؟
5۔انسا ن کو کس چیز کے بارے میں سوچنا چاہئے؟
درج ذیل غیر درسی عبا رت  کو ‏غور سے پڑھئے، ردج ذیل  سوالات کے صحیح جوابات لکھئے:
اقبال کے بزرگ سپروبرہمن تھے، کشمیر ان کا وطن تھا اسلام قبول کرنےکے بعد ان کا خاندان سیال کوٹ میں آباد ہوگیا، یہیں 9 نومبر 1877 کو محمد اقبال کی ولادت ہوئی۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ ماں کا نام امام بی بی تھا۔ ماں باپ نے اقبال کی تعلیم وتربیت پر بہت توجہ کی۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ اقبال بڑی خوش الحانی سے تلاوت قرآن کرتے تھے۔ سید شاہ میر حسن کی رہنمائی میں اقبال میں شعری ذوق پیدا ہوگیا۔ گورنمنٹ کالج سے فلسفے میں ایم۔ اے۔ پاس کیا۔ تعلیم کے دوران انھیں پروفیسر آرنلڈ کی سرپرستی ملی۔اقبال نے داغ کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی۔1905 میں اعلی تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ 1908 میں واپس آئے تو وہ بالکل بدلے ہوئے تھے۔
درج   ذیل درسی   ا قتباس  کو  ‏غور  سے  پڑھئیے،    اور    درج   ذیل   سوالات  کے   جوابات  لکھئیے:1۔ اقبال کے بزرگ کون تھے؟
(الف) داغ (ب) میر تقی میر (ج) سپروبرہمن
2۔ اقبال کا وطن کیا تھا؟
الف) انگلینڈ (ب) جاپان      (ج) کشمیر
3۔ اقبال کی ولادت کب ہوئی؟
(الف) 9  نومبر1877 (ب) 7 نومبر1976 (ج) 6 دسمبر1954
4۔ ان کے والد کا نام؟
(الف)  داغ تھا (ب) شیخ نور محمد تھا (ج) خالد تھا
5۔ اعلی تعلیم کے لئے اقبال کہاں گئے؟
(الف) چین گئے (ب) کویت گئے (ج) ) انگلستان گئے
  • درج ذیل نثری عبارت کو پڑھتے ہوئے جوابات لکھئے:
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہرجگہ نیک لوگ بستے تھے اور دغا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے، کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جس کا حق ہوتا تھا، اسے مل جایا کرتا تھا۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد میں ایک بہت  دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر عر سے خریدا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہوکر جا رہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا۔ ابھی یہ دھن میں آگے جا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھ آدمیوں نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار خالی دیے، لیکن جب دیکھا کہ وہ چھ ہیں تو سوچا کہ اچھا یہی ہے کہ ان سے بچ کر نکل چلوں۔اس نے گھوڑے کوگھر کی طرف پھیرا، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پیچھے ڈال دیے۔اب تو عجیب حال تھا۔ سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے، گھوڑا دکا ن دار کی جان بچاکر اسے گھر لے آیا۔
ہندو مسلمان کس کا خیال رکھتے تھے؟
(الف)  ایک نوکرکا (ب) ایک دوسرے کا (ج)عام انسان کا
ایک شہر کا نام کیا تھا ؟
(الف) دہلی (ب) ہریانہ (ج) عادل آباد
بہت دام دے کر عرب سے کیا خریدا تھا؟
(الف) کتا (ب) گھوڑا (ج) شیر
بے خیالی میں دکاندار کہاں پہنچ گیا؟
(الف)  گفا میں (ب) شہر میں (ج) جنگل میں

0/Post a Comment/Comments

Welcome

Thank You